باہمی اِتفاق
کلیسیائی نِظام بھی دِیگر کاروباری نظام کی طرح ہے جِس میں جھُوٹ، چُغلی، اِختلافِ رائے ، غُصہ اور دُوسرے اِنسانی جذبات پائے جاتے ہیں۔ بیشک ایسا رویہ غلط ہے اور ہمیشہ کلیسیائی تباہی کا سبب بنتا آیا ہے جِس کا ذکر مُقدس پولُس رسُول نے اِفسیوں 4: 17- 32 میں کیا ہے۔ آج مذکوُرہ آیات میں بھی دو ایسی خواتین سے متعلق بیان کیا گیا ہے جِن کی آپس میں نا اِتفاقی کی وجہ سے فِلپی کلیسیا کو بُہت نقصان ہوا۔ یوُ ؤدیہ کے مُعانی " خُوشحال سفر" اور سُنتخے کےمعانی " خوشگوار ساتھی"۔ لیکن اُن کا چال چلن اُن کے نام کے منافی تھا۔
ہمیں اِن اِختلافات کی وجہ تو معلوُم نہیں لیکن غلباً اِپفُردِتُس کے ذریعہ مُقدس پولُس رسُول کو رُوم میں خبر مِلی کہ وہ کلیسیا میں نااِتفاقی کا سبب ہیں ( فِلپیوں 2: 25)۔ مُقدس پولُس رسُول کی یہ خواہش تھی کہ اُن کے آپس میں اِختلاف کو ختم کر کے اُن کی دوستی کو بحال کیا جائے تاکہ وہ نئی پیدائش کے وسیلہ اَپنی اَبدیت میں اَکٹھی رہیں۔اِس کا حَل کیا تھا؟
مُقدس پولُس رسُول نے مَذکوُرہ مسلہ کو چھڑے بغیر بشارتی اور رُوحانی طریقہ سے اِس کا حَل نکالا۔ پہلے تو اُس نے مسیحی تعلیم کے وسیلہ آپس میں مُحبت کا درس دِیا اور تمام حالات کو اِلہٰی نکتہ نظر سے دِیکھنے کی اپیل کی۔ پھِر اُس نے اَپنے ایک بااَعتماد ساتھی " سائزگُس " کو بطور صالح مقرر کیا کہ اُن کی آپس میں صلح کرا دے۔ پھِر مُقدس پولُس رسُول نے کلیسیا کو یہ بھی یاد دلایا کہ اُنہوں کس طرح مِل کر اِنجیل کی بشارت کا کام کیا اور اَب بشارت کے کام پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ اصلاح ِ کلیسیا کی آخری تحریک یہ تھی کہ اِیمانداروں کا نام کِتابِ حیات میں لکھے ہوئے ہیں ( دانی ایل 12: 1، مُکاشفہ 20: 15 )۔ مُقدس پولُس رسُول نے یہ اصلاحی کام سختی سے نہیں بلکہ بڑے پیار سے اُن خواتین اور کلیسیا کو یہ بات باور کرائی کہ اِنجیل کی بشارت ہمارے ذاتی اِختلافات سے زیادہ اہم ہے جو مُقدس پولُس رسُول کا ذاتی تجرُبہ بھی تھا ( فِلپیوں 1: 15- 18 )۔
بُہت سارے غیر مسیحی اداروں کی طرح کلیسیا ئی ادارے بھی اَپنے اَندرونی مُعاملات اور اختلافات حَل کرنے میں ناکام رہے ہیں جِس کی وجہ سچّائی کو مرکزی حثیت نہ دیناہے۔کسِی بھی مسلہ کا حل سچّائی پر مبنی ہوتا ہے ورنہ عدمِ اعتماد کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج بُہت سارے بشارتی ادارے اَپنی خِدمت میں ناکام ہو رہے ہیں اور باہمی کلیسیائی ا ِتحاد سے متعلق بُہت سی مصالحتی کوششیں بارور نہیں ہو رہیں۔ کاروباری مُعاملات اور ازدواجی زِندگی میں بھی حالات کچھ اَیسے ہی ہیں۔ اِن تمام مسائل کا حل صِرف اور صِرف سچّائی کو جاننا ہے۔ جِس سے اعتماد کی فضا بحال ہو گی اور لوگ نئے سِرے سے اَپنے کام میں واپس آئیں گےاور اِس طرح کلیسیاؤں کے بشارتی کاموں میں ترقی ہوگی۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم باہم مُتفق ہو کر اُس کی خِدمت کریں گے۔

