اِیمان
یمان محض ایک منطقی تصور یا جذباتی تجربہ نہیں ہے اور نہ ہم اِ سے اَلفاظ میں بیان کرتے ہیں بلکہ اِیمان اُمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اَن دیکھی چیزوں کا ثبوت ہے (عِبرانیوں 11: 1-6)۔ خُدا پر بھروسہ کرنے میں ہماری مرضی کا شامل ہونا لازم ہے جِس کے نتیجہ میں پراُعتماد عمل پیدا ہوتا ہے۔کسی دُوسرے شخص پر بھروسہ کی بنیاد مخصوص تعلُقات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ خُدا کے ساتھ ہمارے رشتے کے بارے میں بھی اتنا ہی سچ ہے۔اگرچہ کچھ لوگوں کے خیال میں مسیحیوں کی دوا قسام ہیں، پہلے وہ جو رُوحانی سوچ کے حامل ہیں اور دُوسرے وہ جو عملی مدد کرنے کے قائل ہیں۔ ایسی درجہ بندی میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
یہ ہو سکتا ہے کہ بعض اِیمانداروں میں عملی خدمت کرنے کی نعمت دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہو لیکن وہ خُدا کے کلام کے مُطابق نہیں تو اُس کا کوئی رُوحانی فائدہ نہیں۔ اِسی طرح وہ اِیماندار جو بائبل مُقدس کی سچائیوں کو خوبصورت طریقے سے بیان کرتے ہیں لیکن اُن کا علم راستبازی پیدا نہیں کرتا تو وہ رُوحانی طور پر بے فائدہ ہے۔ وہ لوگ جو حقیقی معنوں میں اِیماندار ہیں وہ دُوسروں کی عملی مدد کرنے کو بھی خُدا کی خُوشنودی سمجھتے ہیں۔
اور وہ اِیماندار جولامتناہی صبر اور قُربانی کے ساتھ خِدمت کرتے ہیں انہیں اِس تحریک کی ضرورت ہے جو وہ خُداند یِسُوع کی زمینی زندگی اور تعلیم میں پائی جاتی ہے تاکہ وہ ایسے کام کریں جن سے اُنہیں خُداوند یسُوع مسیح کی خوشنودی حاصل ہو۔
خُدا پر اِیمان ایک عام فہم بات ہے۔ مُقدس یعقُوب بڑے وا شگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ شیاطین بھی خُدا پر یقین رکھتے ہیں! بدروحیں بھی بدروح گرفتہ شخص میں سے خُداوند یِسُوع مسیح سے مُخاطب ہوتی تھیں اور اُس کی الُوہیت کو مانتی اور اُس کے اختیار سے ڈرتی تھیں (مرقس1: 24)۔اِبلیس جانتا ہے کہ وہ ہارا ہوا ہے اور خُدا کی طرف سے اُس کے دورِاختیارکے دِن گنے جا چُکے ہیں (مکاشفہ 12:12)۔اگر بد روحیں خُدا کی قدرت سے اِس قدر خوف زدہ ہیں تو یقیناً ایمانداروں کے لیے یہ معمولی نہیں ہے۔ حقیقی اِیمان دِل کی تبدِیلی، نئی پیدائش اور خُدا کے کلام سے عملی اِطلاق ہوتا چاہیے (لُوقا? 11: 27-28)۔
مسیحی زِندگی کا دارو مدار محض خُدا کی پرستش کرنے،کلام سننے اور دعائیں کرنے پر نہیں بلکہ خُداوند یِسُوع مسیح کا طرزِ زِندگی اپنانے اور دُوسروں پر ترس کھاکر عملی مدد کرنے پر ہے۔
لحاظہ ہماری روزمرہ کی زِندگی میں مسیحی اِیمان کا اظہار صرف مُنادی کرنے، کلام سُنانے اور مُناظرے کرنے سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اُن لوگوں کے لئے برکت چاہنے سے جو ہم پر لعنت کرتے ہیں، ، حقیروں کو تسلی دینے، شِکستہ دِلوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور اپنے ستانے والوں کے لئے ِدُعا کرنے سے ہوتا ہے (متی 5: 41-44)۔ خُداوند یِسُوع مسیح کی پیروی ہی اپنی خودی کا اِنکار کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ایسا طرزِ زِندگی، اُن لوگوں کو بھی متوجہ کرے گا جو ہمارے بارے میں جاننا چاہتے اور یہ بھی کہ ہم خُداوند یِسُوع مسیح پر کیوں بھروسہ کرتے ہیں جو بذاتِ خود ایک گواہی ہے۔