زُبان کے نُقصان
مُقدس یعقُوب زُبان کو گھوڑے کی لگام، جہاز کی پتوار اور آگ کی چِنگاری سے تشبیہ دی ہے (یعقُوب 3: 3-5)۔ یہ سب چیزیں اگرچہ سائز میں چھوٹی ہوتی ہیں لیکن اِن کا اثر بڑاہے۔ اَلفاظ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برُے الفاظ کا ماخذ کیا ہے؟ باغِ عدن میں اِنسانی گُناہ کے بعدخُداوند یِسُوع مسیح کے علاوہ ہر اِنسان گُناہ میں پَیدا ہونے لگا (زبُور 51: 5) جِس کی وجہ سے ہم فطری طور پر گُناہ کے قبضہ میں ہیں لیکن ہمیں اِس کا اُ س وقت پتہ چلتا ہے جب ہم کوئی کام یا کلام کرتے ہیں (متی 15: 18)۔یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بُرے اَلفاظ دُوسروں کی زِندگی آگ سے بھی زیادہ تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
بائبل مُقدس میں جہان بھی " جہنم کی آگ کا " ذکر کیا گیا ہے تو اِس سے مُراد ہمیشہ ایک سنجیدہ انتباہ ہوتا ہے (لُوقا16: 23-24)۔ جہنم اَرامی زبان کے لفظ " ہنوم "سے ماخوذ ہے جو جنوبی یروشلم میں ایک وادی کا نام تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یرمیاہ نبی کے زمانے میں یہاں بچوں کی قُربانیاں پیش کی جاتی تھیں (یرمیاہ 7: 31) خُداوند یِسُو ع مسیح کے زمانہ میں یہ جگہ، شہر کا کوڑا دان تھا جہاں آگ جلتی رہتی تھی۔ خُداوند یِسُوع مسیح نے اِس کا اِستعمال اُن لوگوں پر جہنم کے تصور کو واضح کیا ہے جو اُسے رد کرتے ہیں (مرقس 9: 43)۔ اس آیت میں یعقُوب نے اِیمانداروں کوزُبان کے نقصان سے مُتعلق خبردار کیا ہے۔
زُبان دِل کی چمنی ہے جو دِل کے اندر کے شعلوں اور دھوئیں کو باہر نکالتی ہے (لُوقا 6: 45)۔ مُقدس یعقُوب زُبان سے مُتعلق سخت تشبیہات اِستعمال کرکے ہمارے بُرے اَلفاظ کو اِبلیس کے ہتھیار گردانتا ہے جِن سے اِیمانداروں میں نفرت کی آگ بھڑکتی ہے، رشتوں میں بگاڑ، اِنصاف کا قتل اور بد اِعتماد ی کی فضا پَیدا ہوتی ہے جو اِبلیس چاہتا ہے۔ اُس کا مقصد خُدا کے لوگوں کو برباد کرنا، اُن کی خُوشیاں چھیننا اور اُنہیں بُرائی کی طرف مائل کرنا ہے اور اُس کا ہتھیار ہمیشہ ہماری زُبان ہوتا ہے۔
مُقدس یعقُوب نے یہ خط اُن اِیمانداروں کو لکھا جِنہوں نے اپنی زِندگی تو خُداوند یِسُو ع مسیح کو دے تو دی لیکن اُ نکی زُبان اُن کے اِیمان کے ساتھ مُطابقت نہیں رکھتی یہی وجہ ہے کہ مُقدس یعقُوب اِیمانداروں کواِس خطرے سے اگاہ کیا ہے (یعقُوب 3: 9-10)۔ یہی وجہ ہے کہ یعقُوب ہمیں خطرے سے آگاہ کر رہا ہے۔
ہماری روز مرہ کی معاشرتی اور کاروباری زِندگی کے مُعاملات میں ہم بہت سے لوگوں کی باتیں سُنتے ہیں اور بہت لوگوں سے گفتگو کرتے ہیں جِس سے ہمیں اورہمارے ادارے کو فائدہ ہوتا ہے لیکن اِس کے علاوہ ہمارا سامنا کچھ ایسے لوگو ں سے بھی ہوتا ہے جِن کی گفتگو یا ہماری اُن سے بات چیت ایک دُوسرے پر منفی اثر چھوڑتی ہے جو نہ صرف ہماری رُوحانی زِندگی پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ ہماری ابدیت پر بھی بہت بڑا خطرہ ہے۔(متی12: 36)۔ اِس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اِس گُناہ سے توبہ کریں اور خْداوند سے دیندار دِل اور شیریں زُبان مانگیں (امثال10: 31-32)۔