بے قابوزُبان
جسے قابو کرنا جنگلی جانوروں سے بھی مُشکل ہے۔ یہ غیر مُتوقع طور پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جیسے پَیدایش3: 1-5 میں سانپ کی طرح جِس کے زہریلے جھوٹ نے کُل نسلِ اِنسانی میں جھوٹ کے زہر کو پھیلا دیا۔
مُقدس یعقُوب ِایمانداروں کو ایک ایسے خطرہ سے اگاہ کر رہا ہے جو اُن کے اپنے منہ میں موجود ہے۔
اگرچہ وہ خُداوند یِسُوع مسیح پر اِیمان ر کھتے تھے لیکن ا
ن کا اندازِ گفتگو غیر مسیحیوں کی طرح ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ خُداوند یِسُوع مسیح پر اِیمان کے ذریعہ اِطِمینان کی حالت میں تو ہیں (رُومِیوں 5: 1) لیکن ا
ن کی زُبانیں ابھی تک بے قابو ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب پَیدایشی طور پر گُنہگار ہیں (زبُور 51: 5)۔مُقدس یعقُوب کا کہنا ہے کہ زُبان کو کوئی آدمِی قاب
و میں نہیں کر سکتا۔ وہ ایک بلا ہے جو کبھی ر
کتی ہی نہیں۔
گو کہ ہم سب اپنی گفتگو میں بہت محتاط ہوتے ہیں اور اپنے خیالات کا اِظہار اچھے اَلفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری زُبان ناقابل تربیت ہے اور ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ کب اور کیسے الفاظ ہماری زُبان سے نکل جائیںجِس کی وجہ سے ہمارے خاندانی ، کلیسیائی اور مُعاشرتی رِشتوں میں بگاڑ پَیدا ہو سکتا ہے چاہے اُن کا اثر بعد میں ظاہر ہو، جیسے کچھ سانپوں کے کاٹنے سے اُن کا زہر فوراً اثر کرتا ہے اور کچھ کا دیر بعد۔ مُقدس یعقُوب ہمیں زُبان کے خطرے سے خبردار ر کرتا ہے اور ساتھ ہی اِیمانداروں کو تسلی دیتا ہے کہ خ
دا کے پاس وہ سب کرنے کا اِختیار اور طاقت ہے جو ہم نہیں کر سکتے (2 تیمتھیس 1: 9)۔ یعنی وہ ہمارے اندر ایک پاک دِل پَیدا کرنے اور ہمیں اپنے جیسا بنانے کے لئےِ ہماری رُوح کی تجدید کرسکتا ہے جِس سے ہم اپنی زُبان پر قابو پا سکتے ہیں (زبُور 51: 10)۔
کوئی بھی کاروبار ی شخص، جان بوجھ کر کسی ایسے شخص کو ملازمت نہیں دے گا جو اس کی ساکھ کو نُقصان پہنچا سکے یا جِس کی وجہ سے اُس کے صارفین اُسے چھوڑ جائیں یا پھروہ شخص ناقِص مصنوعات پَیدا کرے۔
پھر بھی آپ کی کمپنی/صنعت/پیشہ میں کام کرنے والے لوگ ایسا کر سکتے ہیں اور اُن کی ماضی میںاچھی کارکردگی اُن کے مستقبل کی کامیابی کی ضمانت نہیں دیتی۔ لیکن مسیحیوں کے پاس ایک الٰہی مدد موجود ہے وہ اپنے ہر مُعاملہ میںخُدا سے دُعا کر سکتے ہیں جو ہر حالت میں اُن کی مدد کر سکتا ہے جو واقعی اُن کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ درحقیقت ایک مسیحی کی زُبان ہی اُسے بحث و تقرار میں دُوسروں سے مختلف بناتی ہے جو اُس کی نجات کی گواہی اور دُوسروں کی نجات کا سبب بن سکتی ہے۔
دْعا