دوغلی زُبان
آپ کو بہت عقلمند اور منطقی ثابت کرنے کا ڈرامہ کیا (پَیدایش: 1-5) اور بڑی ہوشیاری کے ساتھ خُدا کے کلام میں ملاوٹ کرتے ہوئے بنی نوع اِنسان کو خُدا اور اُس کے کلام سے دور کر کے اُس کی رُوحانی فطرت کو تبدِیل کر دیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اُس کے بعد اِنسان نے بھی اِبلیس کے اِس دوغلے پن یعنی گفتگو کے دوہرے معیار کو جاری رکھا جِس کی وجہ سے ہمارے اِیمان اور کلام میں مُطابقت نہیں پائی جاتی (یعقُوب 1: 5-7)۔جِس زُبان سے ہم خُدا کی حمد کرتے ہیں اُسی زُبان سے ہم اپنے ساتھیوں کو بُرا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ہماری اِس حالت اور رِیاکاری پر غیر اقوام میں ہم مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔
مُقدس یعقُوب اپنے تدریسی سلسلہ کو بڑی نرم مزاجی سے جاری رکھتے ہوئے اپنے قارئین کو "بھائیو اور بہنو" کہہ کر مُخاطب کرتا ہے۔ وہ لوگ خُداوند یِسُوع مسیح کے وسیلہ اُس کے بہن بھائی ہیں جو یکساں طور پر خُدا کو اپنا باپ اور خُداوند یِسُوع مسیح کو اَپنا خُداوند ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اُنہوں نے مسیحی زِندگی کی شروعات توکی ہے لیکن وہ اپنی نئی فطرت میں ابھی پُختہ نہیں ہوئے اور اپنی پُرانی عادات اور طرزِزندگی کے ُغلام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مُقدس یعقُوب اِس مسلہ کو مُخاطب کئے ہوئے ہے۔
دوغلی زُبان کا تعلُق سانپ کے ساتھ ہے جو اِیمانداروں کو زیب نہیں دیتی۔ یہ دوہرا معیار ایسے ہے جیسے ایک ہی چشمے سے میٹھا اور کھارا پانی نکا لنا یا انجِیرکے درخت میں زیتون اور انگور کی بیل میں انجیر لگنا۔ کوئی بھی کسان اِس طرح کے ناقابل اعتماد حالات میں کاروبار نہیں کر سکتا اور نہ ہی کلیسیا میں اِس کی گنجائش ہے۔ لہذ ا دوغلی زُبان اور دہرا معیار کسی بھی اِیماندار کے کردار کی نفی کرتا ہے اُسے ہر صورت تبدیل کر کے مُثبت کردار اپنانا ہوگا جو اِیمانداروں کے شایانِ شان ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دوغلی زُبان اور دوہرے معیار کو قوتِ ارادی اور خود کو منظم سے اِس کا حل نکالا جا سکتا ہے لیکن اِس مسئلہ کی جڑ ہمارے دِل میں ہے جو ہماری زِندگی کاچشمہ ہے (امثال 4: 23)۔ اِس لئےِ ہمیں سب سے پہلے خْداوند یِسُوع مسیح کے پا س آنے کی ضرورت ہے جو ہمیں ایک پاک اور صاف دِل دے سکتا ہے جیسا کہ مُقدس داؤد نے بھی خُدا سے دُعا کی (زبُور 51: 7-12)۔ ہمارے الفاظ کی صفائی کا اِنحصار ہماے دِل کی پاکیزگی پر ہے (متی 15: 16-19)۔ اس لئے ِہم خُدا سے دُعا کریں کہ وہ ہمارے دِلوں کو پاک اور صاف کرے تاکہ ہم دوغلی زُبان اور دوہرے معیار سے رہائی پا کر اپنی گفتگو سے اپنے خاندان، کلیسیا اور مُعاشرے میں ایک بہتر اور مسیحی کردار ادا کر سکیں اور ُوح القُدس کے وسیلہ سے بہتر ہوتے چلے جائیں گے(گلیِتوں 5: 22-26)۔