دانا اور فہیم
بعض لوگوں کا طرزِ گفتگو تو بہت شیریں ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اَلفاظ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے۔اُن کے دلائل اور مشورہ جات تو قابلِ تعریف ہوتے ہیں لیکن وہ خود اُنہیں عملی شکل دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ نوکری کے حصول کے لئے انٹرویو کے دوران اندازِ گفتگو سے اچھا تاثر قائم کرنا اچھی بات ہے لیکن عملی طور پر کام کے معیار پر پورا اُترنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ہم میں سے کچھ اِیمانداروں کا بھی یہی حال ہے۔ وہ کلیسیا ئی اور اِنتظامی مُعاملات میں تو بڑھ چڑھ کر مشورہ جات دیتے ہیں لیکن جب کچھ کرنے کی باری آتی ہے تو اُن کے اِیمان پر سوالیہ نشان آ جاتا ہے۔
مذکورہ آیت میں مُقدس یعقُوب نے اُ ن اِیمانداروں کے لئے ِجو اپنے آپ دانا اور فہیم کہتے ہیں ایک معیار مقرر کر دیا ہے جِس پر وہ اپنی جانچ کر سکتے ہیں کہ کیااُن کے کام اور کلام میں مُطابقت پائی جاتی ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو اُن کے اِیمان کی بنیاد رِیاکاری پر ہے اور اُنہوں نے کبھی خُداوند یِسُوع مسیح سے مُتعلق جاننے کی کوشش ہی نہیں کی جِس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کے دانا اور فہیم ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کیونکہ حِکمت کا تعلُق ہمارے علم، عمر، ذہانت اور تجربہ سے نہیں بلکہ خُداوند یِسُوع مسیح کے ساتھ ہے جو حِکمت کا منبع ہے۔ اُس سے حاصل کردہ حِکمت سے ہی اِیماندار دانا اور فہیم ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
مُقدس یعقُوب حِکمت، علم اور تجربہ کو غیر اہم نہیں قرار دیتابلکہ اِن کودُنیا سے کاٹ کر خُداوند یِسُوع مسیح کے ساتھ منسوب کر کے اِن کی اہمیت بڑھا دیتا ہے۔ شیخی مارنا، لالچ کرنا اور جِنسی خواہش کرنادُنیاوی چِیزیں ہیں (1 یُوحنا 2: 16) اِسی طرح دانا اور فہیم ہونے پر فخر کرنا بھی الٰہی حِکمت کی کمی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ عاجزی کے ساتھ کئے گئے دانشمندانہ کاموں کو کسی اِشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی۔
حِکمت کا پہلا نشان عاجزی اور اِنکساری ہے جِس میں ہم یہ قبول کرتے ہیں کہ جب تک خُدا ہماری راہنمائی نہ کرے ہم صحیح اور غلط میں پہچان نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے لیکن خُدا فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔ حلیم لوگ کسی بات پر فخر نہیں کرتے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں یا سوچ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے کام اور کلام کو یہ جان کر کرتے ہیں کہ خُداوند کے لئے ِکرتے ہیں نہ کہ آدمیوں کے لئےِ۔ ایسے لوگ کسی بھی ادارے کا اثاثہ ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے دھیان کام کی مقدار پر نہیں بلکہ معیار پر ہوتا ہے (اِفِسیوں 6: 5-8) اور وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں اپنے رُتبہ اور مہارت کی پروا نہیں بلکہ خُدا کی ہدایت پر توجہ دیتے ہیں (1 تواریخ 16: 11)۔ کیا ہم اپنے دفاتر اور کاروباری مراکز پر اپنے دانا اور فہیم ہونے کا ثبوت دے کر خُدا کے نام کو جلال دے سکتے ہیں تاکہ ہم غیر اقوام کو گواہی دے سکیں۔ اگر نہیں، تو یہ دُعا خُداکی حِکمت کی طرف واپس آنے کے لیے پہلا قدم ہو سکتی ہے۔