اعتماد فریب
ہر آزمایش ایک پُر اعتمادفریب ہوتی ہے۔ اِبلیس ہمیشہ ہمیں اپنی بے دین خواہشات کو پورا کرنے اوراُن میں ہمارے دُرست ہونے کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ جب ہم اپنے ضمیر کی آواز اور خُدا کے کلام کو نہیں سُنتے اور دُعا کرنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے تو تب ہی ہم اِس جھوٹ کا شکار بنتے ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کِسی ڈوبتی کمپنی میں سرمایہ کاری کرناجوآدم اور حوا نے باغِ عدن میں کیا (3:1-7)۔ اِبلیس نے انہیں یقین دلایا کہ خُدا کا مطلب وہی ہے جو اُس نے کہا (پَیدایش3:1) پھر انہوں نے یہ مان لیا کہ خُدا غلط تھا(پَیدایش3: 4) کیونکہ اس نے انہیں وہ نہیں دیا جو بہترتھا۔ (پیدائش 3: 5) اور یوں وہ آزمایش میں پڑ گئے۔
مُقدس یعقُوب کہتا ہے کہ ہمیں اِس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم فریب نہ کھائیں۔ ابلیس ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ خُداہمیں وہ نہیں دے گا جو ہمارے لئےِ بہتر ہے اور اگر ہم اِس بات پر یقین کر لیں تو پھرہم میری زِندگی اور میری مرضی کے فارمولا کے مُطابق زندگی بسر کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خُدابڑا مہربان اور فیاض باپ ہے اور اِیمانداروں کی زَندگیوں میں اْس کی برکات اُن کی ضروریات اور خُدا کی مرضی کے مطابق ہوتی ہیں تاکہ اُس کا نام جلال پائے۔ خْدا کے رویے کا انحصار اُس کے مزاج پر نہیں بلکہ وہ کل، آج اور ابد تک یکساں ہے (عِبرانیوں 13: 8)۔ خُدا جو روشنی کا خالق ہے کبھی کسی چیز کو تاریک نہیں کرتا اور نہ ہی اپنے لوگوں کو اندھیرے میں چھوڑ تا ہے۔لیکن اگر ہم نُور میں چلیں جِس طرح کہ وہ نُورمیں ہے تو ہماری آپس میں شراکت ہے اور اُس کے بیٹے یِسُوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے (1 یُوحنا 1: 7)۔
ہم نے اُسے نہیں بلکہ اُس نے ہمیں چُنا ہے۔ اِس لئے اُس نے ہمیں ہماری راہنمائی کے لئے اَپنا لاتبدیل کلام دِیا ہے تاکہ وہ ہماری نجات کے لئے ہمیں درست راستہ دکھائے (زبُور 119: 105) درحقیقت، یہ خُداکے فضل اور خُداوند یِسُوع مسیح کی قربانی پر اِیمان لانے کے وسیلہ ممکن ہو ا کہ ہمیں اندھیرے سے نکال کر اُس کے جلال میں داخل کیا (2 کُرنتھیِوں 4: 6 ، 1 پطرس 2: 9)۔ خُدا کا کلام بر حق ہے۔ اور جب ہم خُداوند یِسُوع مسیح سے متعلق کلام پر یقین رکھتے ہیں تو ہمارے دل منور ہوجاتے ہے اور ہم اس کی مانند بننے کے لیے نئے سرے سے پیدا ہوتے جاتے ہیں۔
تو اگر خُدااتنا مہربان ہے تو پھرہم کیوں گھبراتے ہیں۔ جب حالات و واقعات غلط ہو جاتے ہیں تو ہم اِن معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں، اگرچہ ان حالات سے نمٹنا ہماری اِنسانی ذمہ داری ہے لیکن یہ عمل اِنسانی سوچ سے نہیں بلکہ خُدا کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے ورنہ ہم اِس فریب کا شکار ہوجائیں گے کہ ہمارے جذبات ہی خُدا کی مرضی ہیں۔در اصل ہمیں اپنے رد عمل کو خُدا کے کلام کی روشنی میں جانچنے کی ضرورت ہے۔ہماری روز مرہ کی زِندگی کتنی پُراعتماد ہوگی جب ہم سو فیصد یقین کریں گے کہ خْدا اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتا ہے(رُومِیوں 8: 28)۔ اس لئےِ ایمانداروں کو آزمایش یا کسی اِمتحان میں گھبرانے کی بجائے دُعا، اور انتشار کی بجائے اعتماد ہونا چاہئے (یسعیاہ 30: 15)۔ پھر بھی ہمارا پس منظر، تعلیم اور تجربہ ہمیں اُکساتا ہے کہ اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو پھر ہم فنا ہو جائیں گے۔ چیزوں کو خُدا کے معیار پر کرنے میں وقت اور تجربہ درکار ہوتا ہے لیکن اِس کا آغاز ہمارے اِیمان سے ہوتا ہے کہ خُدا ہر چیز پر قادر ہے اور وہ ہمیں بہترین برکات دے گااور وہ ہماری زندگیوں کو پھل دار کرے گا جس سے ہم خُوشی، دُوسرے برکت اور خُدا کا نام جلال پائے گا۔