عملی دعوت
آج کے جدید تکنیکی دور میں معلومات بُہت عام ہو چکی ہیں۔ انٹرنیٹ بھی ہمیں ناقابلِ ہضم معلومات فراہم کرتا ہے لیکن ماہرین یا مُشیروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بُہت سارے لوگ سچ جاننے اور سیکھا نے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جبکہ ہماری تربیت اِس طور پر ہوئی ہے کہ ہم ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم ہر اُس چیز پر یقین نہیں کرتے جو ہم سنتے یا پڑھتے ہیں۔ ہم یقینی طور پر ہر وہ کام نہیں کرتے جو ہمیں بتایا جاتا ہے۔ یہ سب ہمارے اذہان کا حُسنِ انتخاب ہے کہ کس چیز کو قبُول یا رد کرتے ہیں اور صرف اُسی چیز کو عمل میں لاتے ہیں جِس سے ہمیں یا ہمارے عزیزوں کو فائدہ ہو۔ لیکن پھر بھی ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم زیادہ معلومات حاصل کر لیتے تو ہم زیادہ ہوشیار اور ذہین ہوگے ہیں حالانکہ ہم اِن ساری معلومات پر عمل نہیں کر تے۔
خُدا کو سُننااُس بات کو قبُول کرنے سے شروع ہوتا ہے کہ خُداسچا ہے اور وہ عام گُفتگو میں بھی صرف سچ بولتا ہے۔ اگر ہم خُداکو سُننے میں سنجیدہ ہیں تواِس لئےِ کہ ہمارا اُس کے ساتھ ایک رُوحانی تعلُق ہے اور ہم اُسے خُوش کرنا چاہتے ہیں (عِبرانیوں 11: 6) کیونکہ جب ہم کِسی کو سنجیدگی سے سُنتے ہیں تو اِس سے مُراد اُس کی اطاعت کو قبُول کرنا اور اُس کے خیالات سے مُتفق ہونے کے ُمترادف ہے اور جب ہم کِسی کو نہیں سُنتے تو ہم اُس کے کلام اور خیالات سے اِختلاف کر رہے ہوتے ہیں۔ (زبُور81: 11)۔
مُقدس یعقُوب کہتا ہے کہ اگر ہم خُدا کے کلام یعنی بائبل مُقدس کے سُننے سے متعلُق بھی ایسا غیر سنجیدہ رویہ رکھتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ کسی چالباز شخص یا جادوگرکے ہاتھوں بیوقوف بنناتو ایک طرف، یہاں تو ہم اَپنے آپ کوبیوقوف بنار ہیں (اِفِسیوں 5: 15-17)۔ یہ اِس طرح ہوتا ہے کہ جب ہم خُدا کے کلام کو پڑھتے یا سنتے ہیں تو ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ دراصل خُدا کا کلام ہی خُدا کا پیغام ہے جِس کے وسیلہ خُدا ہم سے بات کرتا ہے اور یہی احساس ہمیں کلام پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن اگر ہم خُدا کے کلام کو غیر سنجیدگی سے لیں اور اِسے عام معلومات کی طرح سُنیں توہمارا رویہ آزادانہ ہو گاکہ ہم اُسے قبُول یا رد کریں۔ مُقدس یعقُوب کہتا ہے کہ یہ محض اَپنے آپ کو بیوقوف بنانے کے ُمترادف ہے۔ بائبل مُقدس ہمیں تجاویز پیش نہیں کرتی بلکہ حکم دیتی ہے کہ قبُول کر کے اُس پر عمل کیا جائے کیونکہ خْدا کا کلام اسی لئے ِہے کہ ہم اْسے پڑھیں اور اُس پرغور کر کے برکت پائیں۔
ہمارے کا روباری مُعاملات میں شاید لوگ ہمیں ریاکار کہیں۔ یونانی زبان میں "ریاکار" کا مطلب "اداکار"ہے یعنی مسیحی ہونے کا ڈرامہ کرنا جو اکثر کلیسیاؤں اور مذہبی راہنماؤں میں پائی جاتی ہے۔ اُن کا یہ منافقانہ اِیمان، کسی دباؤ یا مُصیبت کے وقت اُن کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے لیکن اگر ہم خْدا کے کلام کو پڑھتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں تو ہم کِسی بھی آزما یش کا مُقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اِیمان کی بنیاد خُدا کے کلام پر ہے اور ہمارا مقصد اپنے اَعمال سے خُدا کو خُوش کرنا ہے(یعقُوب 1: 2-4)۔ یہی اِیمان وہ سچا گواہ ہوتا ہے جس سے خُداوند یِسُوع مسیح کی تمجید اور بشارت کے کام کو تقویت ملتی ہے۔ لہٰذا آئیے ہم بڑی عاجزِی اور اِنکساری کے ساتھ اپنی ساری ریاکاری جو در اصل خود فریبی ہے ترک کر کے خُداکو قبُول کرلیں کیونکہ وہی ہے جو ہمیں کلام کو پڑھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ آمین۔