نجاست سے نجات
آج کل کے جدید سائنسی دور میں لوگ کُوڑے کرکٹ کو جلانے یا دبانے کی بجائے (جِن سے زمینی اور فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے) اُسے ری سائیکل یعنی دوبارہ اِستعمال کرنے کو ترجیع دیتے ہیں۔
بُہت سے لوگ اپنی غیر اِخلاقی طرزِ زِندگی کے ساتھ بھی ایسا کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اِسے دوبارہ اِستعمال کر سکتے ہیں (2 پطرس 2: 22)۔ لیکن ایسے نہیں ہو سکتا کیونکہ ہماری غیر اِخلاقی طرزِ زِندگی پلاسٹک یا زہریلے کچرے سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ وہ کوڑا کرکٹ جو ہمارے گلی محلہ میں ہوتا ہے اُسے تو ہم آسانی سے دُوسری جگہ منتقل کر کے دفن کر سکتے یا جلا سکتے ہیں لیکن ہماری باطنی بدصورتی اور نجاست جو ہماری زِندگی کا حصہ بن کراور ہماری خواہشات پر قابو پا کر ہمیں غیر اِخلاقی دُنیا میں دھکیل دیتی ہے (لُوقا 6: 45)جِسے ہم دوسروں سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ ہم اپنے آپ کو اِخلاقی طور پر بہتر تصور کرتے ہو ئے اِسے اپنے آپ سے بھی چھپا سکتے ہیں (لُوقا 18: 10-14)۔ یہ اندرونی نجاست ہمارے اندر آزمایشیوں کو فروغ دینے میں مثالی کردار ادا کرتی ہے اور ہمیں مُعاشرتی اور رُوحانی میعارِ زندگی سے دور لے جاتی ہے۔
اِس اندرونی آلودگی سے نمپٹنا اِس لئےِ تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ جِسمانی خواہشات اور بُری عادات ہماری زِندگی کا حصہ بن جاتی ہیں (رُومِیوں 7 18:)۔ اِس نجاست سے نجات کے حصول کے لئےِ ہمیں اپنی کوشش اور مُعاشرہ کی مدد سے اِنکار، خُدا اور خُداوند یِسُوع مسیح کے خِلاف گُناہ کی سنجیدگی (عِبرانیوں 10: 29) اور نجاست سے نجات حاصل کرنے کی کوشش اور خُداوند یِسُوع مسیح کو قبول کرنے کی خواہش کا ہونا ضروری ہے (زبُور51: 10)۔ یہ تحریک خْدا کے کلام سے ملتی ہے جس سے ہمیں خُدا کی مُحبت، گُناہ سے اْس کی نفرت، گناہ کے ساتھ ہماری محبت اور اْسے نظر انداز کرنے پر اُس کے غُصہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ہمیں خُداوند یِسُوع مسیح کی ضرورت ہے جو ہمارے گُناہ کو مُعاف کر تا ہے،کیونکہ خُداوند یِسُوع مسیح نے اپنی صلیبی موت کے وسیلہ ہمارے گُناہوں کو اپنے اوپر لے لیا اور ہماری خاطر قربان ہو کر گُناہ کے زور کو توڑ ڈالااور اَب جب ہم اپنے گُناہوں کا اِقرار کرتے ہیں توہم مکمل مُعافی حاصل کرتے ہیں۔ (1
یوحنا 1: 9)۔اَپنے گُناہوں کااِقرار کرنے سے مُراداُنہیں خُداوند یِسُوع مسیح کے سامنے تسلیم کرنا ہے جس نے ہمارے گُناہوں کی بھاری قیمت اداکر دی ہے تا کہ ہم اُنہیں دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں (مِیکاہ 7: 19، زبُور 103: 12)۔ اِس کے برعکس سوچ یہ ہے کہ ہمارے گُناہ فطری اور ہماری زِندگی کا حصہ ہیں لیکن یہ سوچ شیطانی ہے اور نجات کے الٰہی منصُوبہ کے خِلاف ہے جِس سے ہم خُدا سے علیحدگی کا باعث بنتے ہیں۔ اِس کے بجائے خْدایہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے کلام میں مندرج سچائی کو قبُول کریں جِس کا بیج کلام کے وسیلہ ہمارے دِلوں میں بویاجاتا ہے جو ہماری زِندگی کی تبدِیلی کے لئے خُود بخُو کام نہیں کرتا بلکہ اُسے پنپنے کے لئےِ کلام کی قبولیت اور اپنی اِخلاقی نجاست کو دور کرنا کے عناصر کا ہونا بھی ضروری ہے لیکن اگر ہم ایسا نہیں کریں گے، تو ہمارے باطنی بدصورتی اور گُناہ اِس سچائی کا
گلا گھونٹ دیں گے جِس کے نتیجہ میں ہم اور ہمارے اردگرد کے لوگوں بھی اِس سے مُتاثر ہو سکتے ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کاروباری مُعاملات میں اہداف کے حصول کا دباؤ ہمیں عاجزوانکسار ہونے کی بجائے غرور اور تکبُر کا شکار ہو جاتے ہیں جو ہماری غیراِخلاقی معیارِزِندگی کا حصہ بن جاتے ہیں جِس سے ہماری رُوحانی زِندگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔اِس سے خُداوند یِسُوع مسیح پر ہمارا اِیمان، دیگر اِیمانداروں کے لئے مذاق اور کمزور اِیمانداروں کے لئے ِکمزوری کا سبب بنتا ہے۔لہذا ہم اپنے اِیمان کا دامن نہ چھوڑیں اور مسیحی گواہی کے لئےِ اُن کو برداشت کریں۔خُدا کی سچائی کو مان لینا ہمیشہ عقلمندی اور بہادری کی بات ہے کیونکہ نجات صرف خُداکے کلام کے ذریعہ ملتی ہے جِس سے ہمیں عقلمندی
اور بہادری کا سا طرزِ زندگی حاصل ہوتا ہے۔اِس لئے ِنجاست سے نجات اور خُدا کے کلام کو حلیمی سے قبول کر لینا ہی معیاری مسیحی زندگی ہے۔ آ ئیے ہم دُعا کری